تفسير ابن كثير



سورۃ الواقعة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ[53] فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ[54] فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ[55] هَذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ[56] نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ[57] أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ[58] أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ[59] نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ[60] عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ[61] وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَى فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ[62]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر اس سے پیٹ بھرنے والے ہو۔ [53] پھر اس پر کھولتے پانی سے پینے والے ہو۔ [54] پھرپیاس کی بیماری والے اونٹوں کے پینے کی طرح پینے والے ہو۔ [55] یہ جزا کے دن ان کی مہمانی ہے۔ [56] ہم نے ہی تمھیں پیدا کیا تو تم (دوبارہ اٹھنے کو) کیوں سچ نہیں مانتے؟ [57] تو کیا تم نے دیکھا وہ (نطفہ) جو تم ٹپکاتے ہو؟ [58] کیا تم اسے پیدا کرتے ہو، یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں؟ [59] ہم نے ہی تمھارے درمیان موت کا وقت مقرر کیا ہے اور ہم ہرگز عاجز نہیں ہیں۔ [60] اس بات سے کہ تمھاری جگہ تمھارے جیسے اور لوگ لے آئیں اور نئے سرے سے تمھیں ایسی صورت میں پیدا کر دیں جو تم نہیں جانتے۔ [61] اور بلاشبہ یقینا تم پہلی دفعہ پیدا ہونے کو جان چکے ہو تو تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ [62]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اسی سے پیٹ بھرنے والے ہو [53] پھر اس پر گرم کھولتا پانی پینے والے ہو [54] پھر پینے والے بھی پیاسے اونٹوں کی طرح [55] قیامت کے دن ان کی مہمانی یہ ہے [56] ہم ہی نے تم سب کو پیدا کیا ہے پھر تم کیوں باور نہیں کرتے؟ [57] اچھا پھر یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو [58] کیا اس کا (انسان) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں؟ [59] ہم ہی نے تم میں موت کو متعین کر دیا ہے اور ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں ہیں [60] کہ تمہاری جگہ تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمہیں نئے سرے سے اس عالم میں پیدا کریں جس سے تم (بالکل) بےخبر ہو [61] تمہیں یقینی طور پر پہلی دفعہ کی پیدائش معلوم ہی ہے پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟ [62]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اسی سے پیٹ بھرو گے [53] اور اس پر کھولتا ہوا پانی پیو گے [54] اور پیو گے بھی تو اس طرح جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں [55] جزا کے دن یہ ان کی ضیافت ہوگی [56] ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا ہے تو تم (دوبارہ اُٹھنے کو) کیوں سچ نہیں سمجھتے؟ [57] دیکھو تو کہ جس (نطفے) کو تم (عورتوں کے رحم میں) ڈالتے ہو [58] کیا تم اس (سے انسان) کو بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟ [59] ہم نے تم میں مرنا ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس (بات) سے عاجز نہیں [60] کہ تمہاری طرح کے اور لوگ تمہاری جگہ لے آئیں اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کر دیں [61] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے۔ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟ [62]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 53، 54، 55، 56، 57، 58، 59، 60، 61، 62،

منکرین قیامت کو جواب ٭٭

اللہ تعالیٰ قیامت کے منکرین کو لاجواب کرنے کے لیے قیامت کے قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ جی اٹھنے کی دلیل دے رہا ہے، فرماتا ہے کہ جب ہم نے پہلی مرتبہ جبکہ تم کچھ نہ تھے تمہیں پیدا کر دیا تو اب فنا ہونے کے بعد جبکہ کچھ نہ کچھ تو تم رہو گے ہی۔ تمہیں دوبارہ پیدا کرنا ہم پر کیا گراں ہو گا؟ جب ابتدائی اور پہلی پیدائش کو مانتے ہو تو پھر دوسری مرتبہ کے پیدا ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو؟ دیکھو انسان کے خاص پانی کے قطرے تو عورت کے بچہ دان میں پہنچ جاتے ہیں اتنا کام تو تمہارا تھا لیکن اب ان قطروں کو بصورت انسان پیدا کرنا یہ کس کا کام ہے؟ ظاہر ہے کہ تمہارا اس میں کوئی دخل نہیں کوئی ہاتھ نہیں کوئی قدرت نہیں کوئی تدبیر نہیں، پیدا کرنا یہ صفت صرف خالق کل اللہ رب العزت کی ہی ہے ٹھیک اسی طرح مار ڈالنے پر بھی وہی قادر ہے۔ کل آسمان و زمین والوں کی موت کا متصرف بھی اللہ ہی ہے۔ پھر بھلا اتنی بڑی قدرتوں کا مالک کیا یہ نہیں کر سکتا کہ قیامت کے دن تمہاری پیدائش میں تبدیلی کر کے جس صفت اور جس حال میں چاہے تمہیں از سر نو پیدا کر دے۔ پس جبکہ جانتے ہو، مانتے ہو کہ ابتدائے آفرینش اسی نے کی ہے اور عقل باور کرتی ہے کہ پہلی پہلی پیدائش دوسری پیدائش سے مشکل ہے پھر دوسری پیدائش کا انکار کیوں کرتے ہو؟

یہی اور جگہ ہے «وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ» [30-الروم:27] ‏‏‏‏ اللہ ہی نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور وہی دوبارہ دوہرائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے،

سورۃ یاسین میں «أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ» * «وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ» * «قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ» [36-یس:77-79] ‏‏‏‏ تک ارشاد فرمایا یعنی ” ہم انسان کو نطفے سے پیدا کرتے ہیں پھر وہ حجت بازیاں کرنے لگتا ہے اور ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگتا ہے اور کہتا پھرتا ہے ان بوسیدہ گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا تم اے نبی! ہماری طرف سے جواب دو کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلے پہل پیدا کیا ہے وہ ہر پیدائش کا علم رکھنے والا ہے “۔

سورۃ القیامہ میں فرمایا «أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى» * «أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى» * «ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى» * «فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى» * «أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى» [75-القيامة:40-36] ‏‏‏‏ سے آخر سورۃ تک، یعنی ” کیا انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اسے یونہی آوارہ چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا یہ ایک غلیظ پانی کے نطفے کی شکل میں نہ تھا، پھر خون کے لوتھڑے کی صورت میں نمایاں ہوا تھا؟ پھر اللہ نے اسے پیدا کیا درست کیا مرد عورت بنایا ایسا اللہ مُردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ “
9227



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.